اُس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
علامہ اقبال
اُٹھّو! مری دنیا کے غریبوں کو جگا دوکاخِ اُمَرا کے در و دیوار ہِلا دو
گرماؤ غلاموں کا لہُو سوزِ یقیں سے
کُنجشکِ فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو
کُنجشکِ فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو
سُلطانیِ جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقشِ کُہَن تم کو نظر آئے مِٹا دو
جو نقشِ کُہَن تم کو نظر آئے مِٹا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسرّ نہیں روزی
اُس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
اُس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے
پِیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اُٹھا دو
پِیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اُٹھا دو
حق را بسجودے، صنَماں را بطوافے
بہتر ہے چراغِ حَرم و دَیر بُجھا دو
بہتر ہے چراغِ حَرم و دَیر بُجھا دو
میں ناخوش و بیزار ہُوں مَرمَر کی سِلوں سے
میرے لیے مٹّی کا حرم اور بنا دو
میرے لیے مٹّی کا حرم اور بنا دو
تہذیبِ نوی کارگہِ شیشہ گراں ہے
آدابِ جُنوں شاعرِ مشرِق کو سِکھا دو!
آدابِ جُنوں شاعرِ مشرِق کو سِکھا دو!
ایک تبصرہ شائع کریں