گالیوں کا بیان

گالیوں کا بیان


اشاروں کنایوں میں ہی صحیح ایسا لگتا ہے کہ اب اردو دانوں اور ادب لکھنے والوں کا طبقہ بھی مغلظات کے استعمال پر متفق ہوگیا ہے۔


کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ کچھ مفتیان نئی چیزوں کے 10 سالوں تک ہی غلط ہونے کا فتویٰ دیتے ہیں بعد میں وہ خود ملوث ہوجاتے ہیں اس لئے غلط کو غلط کہنا چھوڑ دیتے ہیں
 گالیوں کی بھی  مثال  ایسی ہی ہو گئی  ہے ، نہ جانے ایسا کیوں لگتا ہے کہ  گالیوں کے استعمال کا اتنا عام ہونا کسی سوچی سمجھی شازش کا نتیجہ ہو اور یہ    گالیاں اتنی مؤثر ہو گئیں ہیں کہ ان کے بنا جینا اب مشکل ہی لگتا ہے، ایم سی ، بی سی ، گاف ، لام جیسے کنائے کانوں وہی لطف فراہم کرتے جیسا کہ بنا مخفف کے کہے جا رہے ہو۔ گویا بولنے میں تو ہم ہیں ہی بے ادب مگر کیا کریں ایف بی اور دیگر شوشل میڈیا کی پالیسیز کے سبب ان حروف کو اسی بس پنظر میں سمجھا جائے۔ 
بس پھر کیا ! کام بن گیا 
مغلظات کی لغات کھول دیجئے
گالیوں پہ گالیاں نکالئیے
گالیوں میں لوگ ماں بہن ایک کر دیتے ہیں
آپ گالیوں کے گلی نکڑ ایک کردیں
وہ سب کہہ دیں جو بڑے جانتے ہیں 
وہ سب جو نو عمروں نے جانا ہے
اور وہ سارا کچھ جو جاننا باقی ہے
نو عمر بچے اکثر موبائل کے زیر اثر رہتے ہیں 
جہاں کبھی نہ کبھی مسلم ناموں والے ریپر بھی سوائپ کی بدولت نمودار ہو جاتے ہیں اور ان کاکیا ہی کہنا 
ان کے گانے کے بول اور عربی کے بول (و براز) میں زیادہ فرق نہیں ملے گا
 
تکلیف یہ ہے کہ گھروں میں بھی یہی کلچر پروان چڑھنے لگا ہے
 وہ کمبخت ویوز کے چکر میں
لائک کمنٹ کے چکر میں اپنی ویڈیو پر ویڈیو بناتے رہتا ہے 
اور ہمارے گھرانے کے بچیاں بچے انجانے میں وہی سب کنزیوم کر تے رہتے ہیں
پھر وہی ہوتا ہے
ایک نے چھوٹے بھائی کو ڈانٹا تو "چل بے ۔۔۔۔ ( ہندی کا جھ + انگلش کا 2"
بے لحاظی کا کلچر اب اس طرح سے ہے کہ ڈرنے کے لئے جب فٹ نہیں گی نہیں کہتے تلذذ سے مستثنی رہوگے جبکہ کسی شاعر نے بیوی سے ڈرتے ہوئے فرمایا تھا
کیا ناپ ہے جورو کا جو پوچھے کوئی موچی
جو پیٹھ پہ نقشہ ہے دکھا کیوں نہیں دیتے


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی