اب حوصلوں کے ٹوٹنے کی باری ہے

 اب حوصلوں کے ٹوٹنے کی باری ہے
اب حوصلوں کے ٹوٹنے کی باری ہے


  ؔشاعر : میں خود 

نا خدا چھوٹ گئے پیچھے سب

ڈگمگاتی جو دکھ رہی ہے

وہ کشتی ہماری ہے

دل روٹھ چکا کب کا اس دنیا سے

اب حوصلوں کے ٹوٹنے کی باری ہے


لاکھ جتن کیئے پھربھی سنوار نہ سکے

شاید قسمت تھی کہ پار کر نہ سکے

پانی زیادہ تھایا کم 

یہ دریا کو ہے بہتر معلوم

 شکوہ بے جا کیا کھڑے رہ کر دہانے سے

اب حوصلوں کے ٹوٹنے کی باری ہے

حال کیا ہے دلوں کا نہ پوچھو انہیں

آنکھ کھولی تھی جس نے تونگری میں

پھر کوئی کسر نہ چھوڑی اس ظالم دنیا نے

 ہرحدعبور کی ستمگری میں

کون غمگسار ہے اپنا

بس الجھنوں اور دکھوں سے یاری ہے

اب حوصلوں کے ٹوٹنے کی باری ہے

یہ محلوں  یہ تختوں یہ تاجوں کی دنیا

ہمیں راس نہ آئی جھوٹے رواجوں کی دنیا

دوغلے پن اور کئی چہروں والے

مفادپرست   دھوکہ نوازوں کی دنیا

وہ اخلاص کی قدرکیا جانے 

جو بالکل اس سے  عاری ہے

اب حوصلوں کے ٹوٹنے کی باری ہے


-



تصویر بذریعہ : Photo by Adrian Dascal on Unsplash




تا کہ اردو کی اشاعت ہو

اردو زبان ہندوستانی زبانوں کا ایک روپ ہے اس ترویج و اشاعت میں ہمارا ساتھ دیں، اس صفحہ کو اپنی بک مارکس میں شامل کریں اور اپنی آراء سے نوازیں۔
ہماری دیگر ویب سائٹ وزٹ کرنا نہ بھولیں جو حسب ذیل ہیں اور آپ کی توجہ کی محتاج ومنتظر ہیں



Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی